بھارت کی جانب سے پاکستان کے آبپاشی کے سب سے بڑے ذریعے دریائے سندھ کا پانی بند کرنے کا سلسلہ بھی ہر روز تیز تر ہو رہا ہے جس کے باعث پاکستان کی کئی ملین ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں خصوصی بحث ہوئی اور ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے بھی تسلیم کیا گیا کہ پانی بند ہونے سے دریائے سندھ سے سیراب ہونے والی 30 لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم پر اختلافی بحث کے دوران ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے پانیوں پر قبضہ سے روکا جائے۔ ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ ملک کو بنجر بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔

ایوان نے پاکستان کے خلاف بھارتی آبی دہشت گردی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے اے پی سی بلانے کا مطالبہ کیا منگل کو قومی اسمبلی میں بیلم حسنین کی جانب سے 17 دسمبر 2013ء کو پیش کردہ قرارداد کہ اس ایوان کی رائے ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی پانیوں پر ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے حکومت فوری اقدامات کرنے پر بحث کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی منزہ حسن نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، عائشہ گلئی نے کہا کہ پانی کے معاملے پر حکومت توجہ نہیں دے رہی۔

انڈیا ڈیم بنا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی پالیسیاں غلط رہیں۔ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ خیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی، جاوید علی شاہ نے کہا کہ پانی کا مسئلہ دہشت گردی سے زیادہ دینا ہے۔ سب ترجیحات چھوڑ کر پانی کے معاملہ کو اہمیت دیناپڑے گی۔ جمشید دستی نے کہا کہ نام چٹا باغ رکھ لیں لیکن ڈیم ضرور بننا چاہئے۔ آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ 1991ء کے معاہدہ میں چاروں صوبوں نے کالا باغ ڈیم بنانے کے حوالے سے اتفاق کیا تھا یہ منصوبہ متنازعہ ہے۔ شہاب الدین نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کا حشر کیا گیا، ہمارے ماہرین نے فائدہ نہیں اٹھایا اور پاکستان کے پاس آنے والے تین دریاؤں کا پانی ضائع کیا گیا۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کا نام سبز باغ ڈیم کر دیں مگر ڈیم ضرور بنائیں۔ دریائے کابل پر ڈیم بنائے جائیں۔

شہاب الدین خان نے کہا کہ ہمارے ماہرین نے تین دریاؤں سے فائدہ نہیں لیا۔ بھارت سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کا خواہشمند ہے۔ اگر ہم اس مسئلے میں الجھے تو ہمارا نقصان ہو گا۔ نواب محمد یوسف تالپور نے کہا کہ سندھ کا پانی کم ہو گیا ہے جس سے ہماری تین ملین ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے ہم سب سے بڑھ کر پاکستانی ہیں تاہم سندھ کے مسائل پر بات کرتے رہیں گے۔

0 comments:

Post a Comment

 
Top